Friday, July 2, 2010

آسکر وائلڈ کے نام


آج ایک بار پھر
مجھ سے میری شناخت کی بابت
دریافت کی گئی ہے
گویا مجھ سے میرے ہونے کی
گواہی مانگی گئی ہے
اور میں خود پر آئد فردِ جرم
کو سن کر اب
بیٹھا سوچ رہا ہوں
کہ کیسے خود کا دفاع کروں
کیونکہ جواب بہت طویل ہے
یا یوں کہو کہ
میری کہانی بہت پرانی ہے
جس میں نہ تو کسی راجا کو رانی ے ملنا تھا
اور نہ ہی کسی چڑیل کو پری سے جلنا تھا
یہ تو فقط حقیقت ہے
میری حقیقت
جو کہ دلچسپ نہ سہی
مگر سچی ضرور ہے
ماضی کی سڑک پر جب چلنا شروع کرتا ہوں تو
مچھے بچپن کے وہ معصوم دن نظر آتے ہیں
جب تتلیوں، جگنوؤں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے
مجھے خبر ہی نہ ہوئی کہ
یہ کام میرے کرنے کے نہیں تھے
میرے لیے تو موزوں کچھ اور ہی کھیل تھے
جو کبھی مجھے راس ہی نہ آئے
میرے لڑکپن کی وہ شامیں
جب میں کھلے آسمان تلے
گھنٹوں بیٹھا بھیتر کی گتھلیاں
سلجھانے کی کوشش کرتا رہتا تھا
مگر وہ کبھی بھی سلجھ نہ سکیں
پھر وہ نوجوانی کی راتیں بھی آئیں
جب میں لمبے لمبے سجدوں میں
خود آگاہی کے واسطے
اس کا در کھٹکھٹاتا رہتا تھا
جس کے بارے میں مشہور ہے
کہ وہ سب کی سنتا ہے
میں عفوانِ شباب کی حدٔت کا مارا
بے صبرا انسان اُس سے
لڑتا، جھگڑتا، کُڑتا، مرتا رہتا
اور بھلا کر بھی کیا سکتا تھا
شب و روز اسی ضد میں کٹنے لگے
مگر اندر کی آگ تھی کہ
کسی طور بُجھتی ہی نہ تھی
مگر جب میرا سارا وجود جل کر خاکستر ہوا
اور مٹھی بھر خاک میرے ہاتھ آئی
تب یہ عقد مجھ پہ کھلا
کہ یہی خاکِ شفا تو مجھے درکار تھی
اور پھر میں نے سچ بولنے کا فیصلہ کر لیا
میں چاہتا تو اپنی جبلت کو جھوٹ کے
رنگین پیراہنوں میں چھپا لیتا
اُن سُرخاب کے پروں کا تاج سر پہ سجا لیتا
جو مجھے سب میں مقبول کر دیتے
مگر میں ایسا نہ کر سکا
کیونکہ میرے خمیر میں
سچ کی مقدار کچھ زیادہ ہی تھی
سچ ـ ـ ـ جس کا راستہ بڑا کٹھن ہے
جس پر چلنے سے تن پر سنگ باری بھی ہوتی ہے
اور پیروں میں آبلے بھی پڑتے ہیں
مگر مجھے کوئی خوف نہ رہا تھا
مجے معلوم ہے کہ
رذدیلوں اور دھتکارے ہوؤں کو
بولنے کا حق بھی نہیں ملتا
مگر میں پھر بھی اتنا ضرور کہوں گا
کہ میری تخلیق بھی اُسی نے کی ہے
جس نے باقی سب کو بنایا ہے
آج بے شک میں ایک سوال ہوں
موردِ الزام ہوں، حسرت و ملال ہوں
مگر مجھے اتنا یقین ہے کہ
جب بھی اس کا انصاف ہو گا
میرا شمار ہو گا
میرا شمار ہو گا ـ ـ ـ


(This poem has been published in the July 2010 issue of Chay magazine)

Photo Courtesy: Tomb of Oscar Wilde by Alberto Riol

No comments:

Post a Comment